حیات درد مسلسل بھی انتشار بھی ہے
حیات درد مسلسل بھی انتشار بھی ہے
قرار ڈھونڈنے والو کہیں قرار بھی ہے
شمیم گل سے سلگتا ہے دامن احساس
کہ تیری نکہت پوشاک شعلہ بار بھی ہے
زمانہ خود نظر آتا نہیں زمانے کو
کہ دل کا آئنہ آلودۂ غبار بھی ہے
زباں سے کہئے تو کیوں کہئے اس کی محفل میں
وہ دل کا حال جو صورت سے آشکار بھی ہے
یہ چاہتا ہے کہ کونین کا خدا بن جائے
وہ آدمی جسے تھوڑا سا اختیار بھی ہے
بہار لے گئی جن وحشیوں کو صحرا میں
چمن کو ان کے پلٹنے کا انتظار بھی ہے
ٹھہر کے دیدۂ نرگس میں اوس کی بوندیں
یہ کہہ رہی ہیں کہ گل ہنس کے اشک بار بھی ہے
نگاہ رشک سے دیکھو نہ اہل ثروت کو
بہار ہے مگر اس کا کچھ اعتبار بھی ہے
زمانہ ایک کسوٹی ہے دوستوں کے لئے
ہیں رازدار بہت کوئی غم گسار بھی ہے
ملی ہے عشق سے سیماؔ جسے بھی دولت غم
اسی کو سوزش ہر زخم خوش گوار بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.