حیات اک سلسلہ ہے آشفتہ جانیوں کا
حیات اک سلسلہ ہے آشفتہ جانیوں کا
ملا مجھے خوب یہ صلہ جاں فشانیوں کا
فریب دہ ہے جنوں بقا کی نشانیوں کا
یہ عالم آب و گل ہے اجلاس فانیوں کا
نگاہ افروز کیف اندوز و عیش آموز
ہے ایک سیل نشاط اٹھتی جوانیوں کا
جنون شاعر شعور عالم ریاض عابد
ہے سب کو انداز اپنی اپنی روانیوں کا
بشر کے دل میں فلک کی نیلاہٹوں کی آہٹ
زمیں کی ہلچل فسوں سمندر کے پانیوں کا
مجھے یہ ڈر ہے کہیں نہ ہو شہر شہر چرچا
تری جفا کی مری وفا کی کہانیوں کا
یہ آدمی آدمی کے بیچ اونچ نیچ یارب
بنا ہے یہ تفرقہ تماشا جہانیوں کا
وصال میں ہم تھے اتنے مدہوش جانتے کیا
کہ سوز حرماں ہے ماحصل شادمانیوں کا
حیات اور موت ہیں تری دلبری کے غمزے
تماشا گہ ہے جہاں تری دلستانیوں کا
یہ گرم آنسو یہ سرد آہیں حزیں نگاہیں
خیال رکھنا مری وفا کی نشانیوں کا
وہ کیسے میرے دل شکستہ کا درد جانیں
ہجوم ہے جن کی زندگی کامرانیوں کا
کہاں ہے چاہت کی دل کش و دل نواز رنجش
ہے تذکرہ ہر جگہ تری مہربانیوں کا
اداس حیراں شباب میرا ہدف رہا ہے
تمہاری راتوں کی دل شکن سرگرانیوں کا
وہ شور اٹھا لا شعور کی ننھی بستیوں میں
غرور ٹوٹا شعور کی راجدھانیوں کا
پناہ دیتی ہے پاپ کو کیوں وشال دھرتی
وچار ایسا سمجھ کا ہے پھیر گیانیوں کا
یہ کیسی بپتا پڑی ہے سنسار پر کہ اے دل
نہ دھیر قائم نہ دھیان باقی ہے دھیانیوں کا
میں اس پہ شیدا ہوا ہوں مدت سے کرشن موہنؔ
جو دل میں رس گھولتا ہے شیریں بیانیوں کا
جدید راہوں کا شوخ راہی ہے کرشن موہنؔ
وہ ہم نوا ہے نئے تمدن کے بانیوں کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.