حیات و موت کے پردے اٹھا دئے جائیں
حیات و موت کے پردے اٹھا دئے جائیں
کہ اب نقوش حقیقت دکھا دئے جائیں
تمام رات مرے ساتھ جلے ہیں تنہا
سحر قریب ہے دیپک بجھا دئے جائیں
ہمارے دور میں حکام کی یہ سازش ہے
کہ خام نینو پہ ایواں بنا دئے جائیں
ذرا سی دیر کی خوشیوں نے ان کو لوٹ لیا
اداسیوں کے نگر پھر بسا دئے جائیں
خلوص و دوستی بیتے دنوں کی باتیں ہیں
کہ طاق پر یہ گہر اب سجا دئے جائیں
کوئی جواب ہی جن کا نہ بن پڑے تم سے
جو وہ سوال ہی اب کے اٹھا دئے جائیں
جو ہم چلے ہیں نئے نقش اب کریں پیدا
تمام نقش کف پا مٹا دئے جائیں
نئے ہیں طور طریقے نظام نو ہے کنولؔ
پرانے دور کے قصے بھلا دئے جائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.