ہزار بندش اوقات سے نکلتا ہے
یہ دن نہیں جو مری رات سے نکلتا ہے
وہ روشنی میں بھی ہوتا نہیں کہیں موجود
جو رنگ ماہ ملاقات سے نکلتا ہے
مجھے بہت ہے جو خوشبو کا ایک جھونکا سا
کبھی کبھی ترے باغات سے نکلتا ہے
اسی نواح میں آباد ہوں کہیں میں بھی
دھواں جو میرے مضافات سے نکلتا ہے
دل اور طرح کے حالات سے الجھتا ہوا
کچھ اور طرح کے حالات سے نکلتا ہے
ثبوت سارا ہمارے خلاف بھی اب تو
ہمارے اپنے بیانات سے نکلتا ہے
جو چاروں سمت گرانی کی ہے فراوانی
تو قحط بھی اسی بہتات سے نکلتا ہے
وہ لحن جس کا سروکار ہی نہیں مجھ سے
کبھی تو وہ بھی مری ذات سے نکلتا ہے
ظفرؔ یہ باعث تشویش بھی ہے سب کے لیے
جو مطلب اور مری بات سے نکلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.