ہزار حادثات غم رواں دواں لیے ہوئے
ہزار حادثات غم رواں دواں لیے ہوئے
کہاں چلی ہے زندگی کشاں کشاں لیے ہوئے
مرے نصیب کی یہ ظلمتیں نہ مٹ سکیں کبھی
کوئی گزر گیا ہزار کہکشاں لیے ہوئے
یہ زندگی بدلتے موسموں کا رنگ روپ ہے
کبھی بہار کا سماں کبھی خزاں لیے ہوئے
مرا یہ کرب ہے کہ میرا کارواں گزر گیا
سمٹ کے رہ گیا ہوں گرد کارواں لیے ہوئے
اگر وہ جان آرزو ملے تو اس کی نذر ہو
کھڑا ہوں کب سے منتظر میں نقد جاں لیے ہوئے
مرے وقار کا سوال تھا میں کچھ نہ کہہ سکا
گزر گئے وہ راحتوں کا اک جہاں لیے ہوئے
کسی بھی زاویے سے عرشؔ اس کو دیکھیے مگر
قدم قدم پہ زندگی ہے امتحاں لیے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.