ہزار راہ میں آیا کریں نشیب و فراز
ہزار راہ میں آیا کریں نشیب و فراز
مزا تو جب ہے کہ ٹوٹے نہ ہمت تگ و تاز
جو دیکھ لیتی ہے ویرانے میں بہار چمن
تجھے نصیب کہاں ایسی چشم جلوہ طراز
نمود صبح کا کیوں منتظر ہے دیوانے
دعا یہ مانگ شب ہجر کی ہو عمر دراز
میسر آ نہ سکی تجھ کو فطرت محمود
اگرچہ دل ہے ترا مبتلائے زلف ایاز
تو ایک کا ہو تو کچھ آئے لطف سجدوں کا
ہر ایک در پہ جھکاتا ہے کیوں جبین نیاز
نصیب کیا ہوں تری انجمن کو پروانے
ملا نہ دل کو ترے مثل شمع سوز و گداز
تری نگاہ نے پایا ہے سامری کا فسوں
مری نظر میں عصائے کلیم کا اعجاز
مآل شام غم زندگی کی فکر نہ کر
ہنوز باقی ہے اک اور صبح کا آغاز
جلا سکے گی نہ زنہار آتش نمرود
ہے شرط یہ کہ ہوں تجھ میں خلیل کے انداز
نہ رہ سکا گل و بلبل کا راز بھی پنہاں
صبا تو کیا کہ چمن سارا بن گیا غماز
ترے وجود کے اسرار کو میں کیا سمجھوں
مرا وجود مرے واسطے ہے خود اک راز
اسے تو چاہئے آزادیٔ فضائے چمن
قفس میں کیا کوئی دکھلائے قوت پرواز
کسی کی یاد میں مصروف اشک باری ہوں
یہی ہے میرا وضو اور یہی ہے میری نماز
میں وہ ہوں جس پہ کبھی ان کو ناز تھا نجمیؔ
کریں وہ لاکھ حقیقت کو اب نظر انداز
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.