ہزار شکر کبھی تیرا آسرا نہ گیا
ہزار شکر کبھی تیرا آسرا نہ گیا
مگر یہ ہے دل آدم کہ وسوسہ نہ گیا
وہ جب کہ زیست بھی اک فن تھی وہ زمانہ گیا
اب ایک چیخ کہ انداز شاعرانہ گیا
بہت ہی شور تھا اہل جنوں کا پر اب کے
خرد سے آ کے کوئی زور آزما نہ گیا
چلی ہے اب کے برس وہ ہوائے شدت برف
دیار دل کی طرف کوئی قافلہ نہ گیا
بہت ہی سستی ہے بازار جاں میں جنس وفا
ارے یہ قحط طلب دل کا کارخانہ گیا
میں توڑ توڑ کے خود کو بناتا رہتا ہوں
اب ایک عمر ہوئی پھر بھی بچپنا نہ گیا
بس ایک گھونٹ محبت کا پی کے پچھتائے
تمام عمر وہ اک تلخ ذائقہ نہ گیا
کبھی بکھر گئے باتوں میں مثل نگہت گل
کبھی کلی کی طرح منہ سے کچھ کہا نہ گیا
گمان یہ تھا کہ بس دو قدم ہے اس کی گلی
قدم اٹھے تو یہی دو قدم چلا نہ گیا
میں ایک برگ خزاں دیدہ ہوں زمین کا بوجھ
ہوائے دہر ترے دوش پر اڑا نہ گیا
برنگ گل رہے ہم بھی مزاج دان بہار
بس ایک بار ہنسے پھر کبھی ہنسا نہ گیا
اب آؤ دن کی کہانی لکھیں کوئی باقرؔ
کہ رات ختم ہوئی رات کا فسانہ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.