ہزاروں غم ہیں لیکن بار غم دل پر نہ رکھوں گا
ہزاروں غم ہیں لیکن بار غم دل پر نہ رکھوں گا
یہ نازک آبگینہ اس پہ میں پتھر نہ رکھوں گا
وہ موسم وہ فضا وہ ساعتیں تیرے بچھڑنے کی
میں اپنے ذہن میں ماضی کے پس منظر نہ رکھوں گا
کوئی مسکن نہ ہوگا اب مری بے خواب راتوں کا
میں اپنے دشمنوں کے بیچ اپنا گھر نہ رکھوں گا
چلوں گا ساتھ اپنے کاروان سر خوشی لے کر
جلو میں اب غم اندوہ کا لشکر نہ رکھوں گا
مرا کیا ہے مجھے کانٹوں پہ سو لینے کی عادت ہے
مصاف زندگی میں بالش و بستر نہ رکھوں گا
بہت محتاط رہنے پر بھی اکثر بھیگ جاتا ہے
میں کوشش لاکھ کرتا ہوں کہ دامن تر نہ رکھوں گا
بجا ہے اے حزیںؔ مجرم ہوں ناکردہ گناہی کا
مگر الزام جینے کا میں اپنے سر نہ رکھوں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.