ہجر کے جام سے سیراب رہا کرتے تھے
ہجر کے جام سے سیراب رہا کرتے تھے
موسم غم میں نمویاب رہا کرتے تھے
دید کی شرط نہ تھی عشق کے افسانے میں
ہم تجھے سوچ کے شاداب رہا کرتے تھے
تیری آنکھوں میں دمکتے تھے ستاروں کی طرح
خواب تھے اور پس خواب رہا کرتے تھے
مجھ سے کہتی ہے یہ سینے میں دھڑکتی ہوئی برف
یاں کبھی ابر و گل و آب رہا کرتے تھے
دشت ہیں اب مری آنکھیں تو کرم ہے تیرا
ورنہ پہلے یہاں سیلاب رہا کرتے تھے
پاس ناموس محبت میں جیے تھے کچھ لوگ
شہر میں ہم سے خوش آداب رہا کرتے تھے
جب میسر تھا ہمیں وہ تو شبوں میں اپنی
کئی سورج کئی مہتاب رہا کرتے تھے
تتلیاں تھیں تری آنکھیں کہ جنہیں پھول سے لب
بڑھ کے چھو لینے کو بیتاب رہا کرتے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.