ہجر کی بے تابیاں تھیں حسرتوں کا جوش تھا
ہجر کی بے تابیاں تھیں حسرتوں کا جوش تھا
حسن کا آغوش پھر بھی حسن کا آغوش تھا
ہم تو جس محفل میں بیٹھے شغل ناؤ نوش تھا
زندگی میں موت بھی آئے گی کس کو ہوش تھا
ضبط کرتے کرتے آخر پھوٹ نکلی دل کی بات
ہنس پڑا گلشن میں جو بھی غنچۂ خاموش تھا
احترام حسن کہئے یا اسے رعب جمال
ان کا پردے سے نکلنا تھا کہ میں بے ہوش تھا
مجھ سے پوچھو سرگزشت مے کدہ بادہ کشو
تھا کبھی میرا بھی عالم میں بھی بادہ نوش تھا
لغزشیں میری مسلم ابتدائے عشق میں
آپ کو بھی کچھ خبر تھی آپ کو بھی ہوش تھا
عشق کا اعجاز تھا یہ عشق کی تاثیر بھی
دل سے جو نالہ نکلتا تھا سکون گوش تھا
کوئی کیا سمجھا مری دیوانگی کو کیا خبر
آپ کی نظروں میں تھا اتنا تو مجھ کو ہوش تھا
آج تسبیح و مصلیٰ لے کے عارفؔ بن گیا
کل جو روح مے کدہ تھا رند و بادہ نوش تھا
- کتاب : Lamhon Ki Dhadkanen (Pg. 33)
- Author : Mohammad Usmaan Arif
- مطبع : Bedil Academy,Rajisthan (1985)
- اشاعت : 1985
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.