ہجر کی شب دراز ہے دور ابھی سحر بھی ہے
ہجر کی شب دراز ہے دور ابھی سحر بھی ہے
اور ہماری زندگی شمع سے مختصر بھی ہے
آنکھوں میں آ گئی حیا آئنے پر نظر بھی ہے
اب تو انہیں یقیں ہوا حسن میں کچھ اثر بھی ہے
ایک نگاہ یاس کی تاب نہ لا سکا کوئی
حسن میں جو اثر نہیں عشق میں وہ اثر بھی ہے
بدلی نظر جو آپ کی میرا جہاں بدل گیا
ورنہ یہاں ابھی وہی شام بھی ہے سحر بھی ہے
جلوے ترے سمیٹ کر بھر لیا دامن نظر
عشق بھی میرا ہے حسیں میری حسیں نظر بھی ہے
کتنے وہ نامراد تھے مٹ کے جو بے نشاں ہوئے
تم نے جنہیں مٹا دیا ان کی تمہیں خبر بھی ہے
تکملۂ نیاز عشق کیوں نہ کروں میں اے ذبیحؔ
سجدے کو ہے وہ آستاں دوش پہ میرے سر بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.