ہراس ہے یہ ازل کا کہ زندگی کیا ہے
ہراس ہے یہ ازل کا کہ زندگی کیا ہے
خدا نہیں ہے تو لوگو امید بھی کیا ہے
کسی کا رس کوئی پرواز رنگ کی منزل
عذار لالۂ صحرا کی تازگی کیا ہے
جو ہے وہ کچھ بھی نہیں جو نہیں وہ سب کچھ ہے
مرے خدا یہ تمنا کی ساحری کیا ہے
تمام حسن جہاں ناتمام ہے کہ نہیں
یہ اپسرا کا تصور یہ جل پری کیا ہے
سب اپنی سمت اشارہ کریں اگر پوچھو
کہ حق کدھر ہے زمانے میں راستی کیا ہے
دلوں نے عمر بھر آواز دی ہے سینوں سے
کسی نے جھوٹوں بھی پوچھا نہیں کبھی کیا ہے
یہ گھیر گھیر کے کیوں حال دل سناتے ہو
یہاں کسی کو کسی کی میاں پڑی کیا ہے
بتاؤ کون سے دانش کدے میں پڑھنے جائیں
کہاں نصاب میں یہ ہے کہ آدمی کیا ہے
کبھی کبھی کی ترش روئی جمال کی آن
یہ انگبیں میں بھی تھوڑی سی چاشنی کیا ہے
دیا تو خود مری ہم خواب نے بجھایا تھا
تو پھر یہ سیج پہ تاروں کی چھاؤں سی کیا ہے
ترے اچٹتے اشارے پہ وار دوں جاناں
ہزار زندگیاں ایک زندگی کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.