حصار دل سے ادھر بھی حقیقتیں ہیں بہت
حصار دل سے ادھر بھی حقیقتیں ہیں بہت
ترے بغیر بھی جینے کی صورتیں ہیں ہیں
ترے غرور کو ہم سے شکایتیں ہیں بجا
ہم آدمی ہیں ہمیں پست عادتیں ہیں بہت
جو تیری طرز جفا سے ہمارا حال ہوا
زباں پہ لائیں یہ اس میں قباحتیں ہیں بہت
اگر ہے باعث وحشت تجھے ہمارا جنوں
ہمیں بھی تیری ادا سے شکایتیں ہیں بہت
غلط کہ ملنے میں ہے فاصلے کا خوف تجھے
کہ آج کل تو سفر میں سہولتیں ہیں بہت
مجھے تو چھوڑ گیا راہ میں تو ٹھیک ہوا
کہ پا شکستہ تھا میں اور مسافتیں ہیں بہت
زبان کھول کے اس بزم میں خراب ہوئے
سوال ایک تھا لیکن وضاحتیں ہیں بہت
کسے سنیں تو کریں کس سے ہم گریز کہ یاں
ہر اک زباں پہ غموں کی حکایتیں ہیں بہت
ہمیں عذاب قیامت کا کوئی خوف نہیں
کہ اس سے بڑھ کے جہاں میں قیامتیں ہیں بہت
ملے یہ لوگ تو کیوں اور لوگ کیوں نہ ملے
جواب کوئی نہیں ہے بجھارتیں ہیں بہت
نہیں ہے آج کی تنہائیوں سے ہول ہمیں
کہ دل پہ نقش جوانی کی صورتیں ہیں بہت
کس احتیاط سے اے عرشؔ اس کو صرف کریں
متاع عمر ہے کم اور چاہتیں ہیں بہت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.