حصار ذات سے باہر نکل جانے کی ٹھانی ہے
حصار ذات سے باہر نکل جانے کی ٹھانی ہے
ذرا میں بھی تو دیکھوں مجھ میں کتنی بے کرانی ہے
کسی سے پوچھتے کیا ہو جبینوں پر نظر ڈالو
لکیریں خود کہیں گی کس نے کتنی خاک چھانی ہے
فریب بال و پر میں قید ہے احساس کا طائر
شعور و آگہی پر بھی قفس کی حکمرانی ہے
متاع آرزو اشکوں کی صورت آنکھ میں آ کر
ٹھہر جائے تو گوہر ہے جو بہہ جائے تو پانی ہے
کنارے سے نکل کر چاہتی ہے بے کراں ہونا
نفس کی رو ہے یا شوریدہ دریا کی روانی ہے
سوائے گرد راہ شوق کیا رکھا ہے قصے میں
ہماری زندگی خانہ بدوشوں کی کہانی ہے
مری آنکھوں سے مہر و ماہ پیہم بات کرتے ہیں
مرے پیکر میں روشن اک جہان خوش گمانی ہے
سلوک دوستاں پر راز تم حیرت زدہ کیوں ہو
نئے ہیں زخم جاں لیکن روایت تو پرانی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.