ہو اگر دیدۂ تر حسن نظر کھلتا ہے
ہو اگر دیدۂ تر حسن نظر کھلتا ہے
شوق نظارہ سے احساس کا در کھلتا ہے
پوری پڑتی ہی نہیں ان کو ردائے غربت
پاؤں ڈھک جائیں اگر ان کے تو سر کھلتا ہے
اجنبیت کی وہ دیواریں اٹھائے جائیں
ان میں در کھلتا ہے کب اہل نظر کھلتا ہے
دل سمجھتا ہے کہ آسودگی منزل پر ہے
دیکھنا یہ ہے کہاں بار سفر کھلتا ہے
موجۂ شوق بھی رخ اپنا بدل لے اے کاش
بادباں کشتی الفت کا جدھر کھلتا ہے
حسن خود بین و خود آرا ہے مزاجاً پھر بھی
شاذ و نادر ہی وہ کھلتا ہے اگر کھلتا ہے
رہ گزر فکر و نظر کی نہ ہو راہیؔ محدود
خضر ہوں ساتھ تو امکان سفر کھلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.