Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم

احمد حسین مائل

ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم

احمد حسین مائل

MORE BYاحمد حسین مائل

    ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم

    دیتے ہیں دل اک آفت جاں کو تھامے ہوئے ہاتھوں سے جگر ہم

    غیر کو گر وہ پیار کریں گے اپنے لہو میں ہوں گے تر ہم

    ڈال ہی دیں گے ان کے قدم پر کاٹ کر اپنے ہاتھ سے سر ہم

    صلح ہوئی تو نالے کھینچے یوں کرتے ہیں سب کو خبر ہم

    پیٹتے ہیں سینے کا ڈھنڈھورا دیتے ہیں دل بار دگر ہم

    اور ملیں گے چھوڑ نہ دیں گے سن کے صدائے مرغ سحر ہم

    حلقہ دونوں ہاتھ کا اپنے ڈال رکھیں گے گرد کمر ہم

    دل کے اندر طور کے اوپر چشم صنم میں عین حرم میں

    تیری ہی صورت تیری ہی مورت پوجنے جائیں تجھ کو کدھر ہم

    راز چھپتے تو آغاز اچھا بھید کھلے تو انجام اچھا

    مثل سکندر بھیس بدل کر جاتے ہیں بن کر نامہ بر ہم

    اندازہ گو کر ہی چکے ہیں آ جاتی ہے مٹھی میں یہ

    آج مگر بے پردہ کریں گے دیکھیں گے پتلی سی کمر ہم

    لاتے ہی کچھ رنگ جوانی آنکھ سے یوں کیں آنکھ نے باتیں

    آؤ دکھائیں سب کو گھاتیں شعبدہ گر تم جادوگر ہم

    کہتی ہیں زلفیں مشکیں کس لیں کوئی جو ڈالے ہاتھ کمر میں

    پھیل کے سوؤ ڈر کیا تم کو گشت کریں گے گرد کمر ہم

    لطف بڑا ہو اور مزا ہو اس کے عوض گر آپ کو پائیں

    بیٹھ کے اپنے گھر کے اندر ڈھونڈھ رہے ہیں یار کا گھر ہم

    تم کو نزاکت اور خدا دے ہم کو لذت اور خدا دے

    پائنچے تم چٹکی سے اٹھا لو تھامے ہوئے چلتے ہیں کمر ہم

    اٹھتا جوبن جھکتی گردن دبتی باتیں رکتی گھاتیں

    ہائے نہ کیوں سو جاں سے فدا ہوں ان چاروں پر اٹھ پھر ہم

    سایہ بن کر ساتھ چلیں گے ساتھ پھریں گے ساتھ رہیں گے

    اپنے گھر میں غیر کے دل میں جاؤ جدھر تم آئیں ادھر ہم

    جلد تم اٹھو دوڑ کے آؤ ہم کو تھامو ہم کو سنبھالو

    گرتے ہیں مثل اشک زمیں پر اٹھتے ہیں شکل درد جگر ہم

    سب سے چھڑا کر لائے اڑا کر کیا نہ رکھیں گے دل میں چھپا کر

    رہنے بسنے چلنے پھرنے تم کو خدا کا دیں گے گھر ہم

    منہ جو کھلے گا رنج بڑھے گا ہم سے نہ بولو ہم کو نہ چھیڑو

    کاہیدہ تن آزردہ جان آشفتہ دل خستہ جگر ہم

    یہ تو چھپر کھٹ چھوٹا سا ہے پہلو میں تم سوؤ گے کیوں کر

    آؤ لٹا لیں سینے پر ہم تم کو سلا لیں چھاتی پر ہم

    رنج گر آیا ہو تو بھلا دے پیار بڑھا دے ہم سے ملا دے

    ان کی نگہ سے تو گر تو چکے ہیں جائیں نہ یا رب دل سے اتر ہم

    دیکھ کے ان کا جوبن ابھرا میں نے کہا یہ مال ہے اچھا

    بولے وہ کیا تم لوٹ ہی لو گے گود میں یوں آ جائیں اگر ہم

    ٹھہری ہے باہم لطف کی بازی پہلے جو پائے جیت اسی کی

    وصل کی شب ہے ڈھونڈھ رہے ہیں دل وہ ہمارا ان کی کمر ہم

    روز نئے دل لائیں کہاں سے ایسے تحفے پائیں کہاں سے

    چاٹ پڑی ہے تم کو دلوں کی لوٹنے جائیں کس کا گھر ہم

    غیر کے بر میں ان کو دیکھا خاک میں جائے ایسا نظارہ

    ہاتھ میں کمبخت آ نہیں سکتا توڑتے ورنہ تار نظر ہم

    نشو و نما پائی ہے دکن میں قدر ہماری کیوں کر ہوگی

    گھر کی مرغی دال برابر کس کو دکھائیں اپنا ہنر ہم

    کیوں نہ کرے دیوانہ کسی کو شرم کی عادت حسن کی شوخی

    ہو گئے مائلؔ دیکھ کے مائل اٹھتا جوبن جھکتی نظر ہم

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے