ہو گئی شام چمکتے ہیں دیے پانی پر
ہو گئی شام چمکتے ہیں دیے پانی پر
ہاتھ رکھ دے مری تپتی ہوئی پیشانی پر
گرم آہوں سے جھلستی ہے کتاب احساس
نالہ آتا ہے مری سوختہ سامانی پر
اک مسافر پہ ستم دھوپ کے توبہ توبہ
اک شجر وہ بھی اتر آیا ہے من مانی پر
اب کہاں نرگسی آنکھوں میں شرارت کا شعور
اب کہاں جشن تبسم تری نادانی پر
مجھ سے مت مانگ مری عمر گریزاں کا حساب
پھول ہنستے ہیں مرے زخم کی عریانی پر
آخرش ان کے دیوں کو بھی ہوا روند گئی
ناز تھا جن کو ہواؤں کی نگہبانی پر
سنگ کو گوہر نایاب سمجھتے رہنا
معذرت دیدۂ نا خوب کی نادانی پر
صاف اشکوں کے چھلکنے سے ہوا شیشۂ دل
جیسے چلتی ہو کوئی موج ہوا پانی پر
کیا ہوئے چشم زلیخا وہ سہانے سپنے
مصر کیوں بار ہے اب یوسف کنعانی پر
چشم و ابرو لب و رخسار جبین و کاکل
کس نے رکھی ہے ہر اک شے حد امکانی پر
کفر تو آج بھی ہے دولت ایماں کا رقیب
کیا مسلمان بھی قائم ہے مسلمانی پر
میرے حصے میں رہی صرف ادائے اعراض
درد کو داد ملی میری غزل خوانی پر
جھیل پر کون چلا آیا ہے بزمیؔ سر شام
عکس مہتاب لرزتا سا لگا پانی پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.