ہو کے مایوس اٹھ گئے در سے
ہو کے مایوس اٹھ گئے در سے
حوصلے دھوپ کے مرے گھر سے
تیرے احسان کا جواب نہیں
بار اترا نہ پھر کبھی سر سے
جھک کے ملتا ہے جو غریبوں سے
وہ تو اونچا ہے ہر قد آور سے
تم تو باہر سے جوڑتے ہو مجھے
میں تو ٹوٹا ہوا ہوں اندر سے
کتنا فاقوں میں لطف آتا ہے
پوچھ لوں کیا کسی قلندر سے
اک فرشتہ بشر کے حلیے میں
مل گیا ہے مجھے مقدر سے
جسم کوئی جدا نہیں ملتا
جسم ہیں سارے سنگ مرمر سے
ڈھونڈنے آئے تھے شب غم کو
خلوتوں میں شراب کو ترسے
سونی ہیں یار بن گزر گاہیں
درد کی آنکھ سے لہو برسے
بد گمانی بھی ہو گئی ظاہر
تیرے اندر سے تیرے باہر سے
خواب ہوتے ہیں ٹوٹنے کے لیے
آج تعبیر خواب کو ترسے
عشق اور عاشقی سے اس کو کیا
اور کیا سنتے اس سخنور سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.