ہو خمار اتنا کہ حالت رہے سرشاری کی
ہو خمار اتنا کہ حالت رہے سرشاری کی
یہ جو بد مستی ہے توہین ہے مے خواری کی
اب تو باقی نہ رہا کوئی شکایت کا جواز
اس نے رسماً جو مسلسل مری غم خواری کی
خواہشیں دل میں وہ فوراً ہی اٹھا دیتا ہے
جب بھی توبہ کی مرے نفس نے عیاری کی
منتظر کب سے ہیں ہم صبح کے آثار نہیں
جانے کب رات ڈھلے اور چھٹے تاریکی
یوں گماں تھا کہ مری مان ہی لے گا لیکن
ایک دیوار سر راہ تھی خودداری کی
بس یہ کر سکتے تھے ہم اور بھلا کیا کرتے
سینچا اشکوں سے چمن خون سے گلکاری کی
یوں تہہ ذات حسیں خوابوں کے منظر پا کر
آرزو اب نہ رہی اوروں کی غم خواری کی
تم تو کہتے تھے گرفتار چلا آئے گا
اس نے پہنی نہیں زنجیر وفاداری کی
ہیں غزل میں مری پنہاں کئی نکتے عادلؔ
ہے کہیں لہجہ نیا اور کہیں باریکی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.