ہو لاگ درمیاں تو کوئی دل بھی تب لگائے
ہو لاگ درمیاں تو کوئی دل بھی تب لگائے
بیٹھے رہو امید یوںہی بے سبب لگائے
جو قرض ہجر سونپ گیا عمر کے عوض
شرط وصال اس سے کہیں بے طلب لگائے
کس جیب احتیاط میں رکھیں متاع دل
بیٹھا نہیں کہاں پہ وہ رہزن نقب لگائے
کھلتا نہیں ہے عقدہ شب انتظار کا
یاروں نے داؤ پیچ یہاں سب کے سب لگائے
چاروں طرف ہے آگ مگر درمیان شہر
بیٹھا ہے یار مجلس جشن طرب لگائے
بازار عشق سرد پڑا نذر جاں کے بعد
اب کوئی نقد نام یا نقد نسب لگائے
پھرتے ہیں لے کے بنت فصاحت کو میرزاؔ
اپنے تئیں خدائے سخن کا لقب لگائے
اس خوانچۂ سخن پہ تو سرمدؔ گزر نہیں
اس سے کہیں ہمیں وہ کسی اور ڈھب لگائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.