ہو رہے ہیں نامہ و پیغام ہنستے بولتے
دلچسپ معلومات
(21جون 1958ء)
ہو رہے ہیں نامہ و پیغام ہنستے بولتے
کٹ رہی ہے ہر سحر ہر شام ہنستے بولتے
مل رہے ہیں نت نئے انعام ہنستے بولتے
کھا رہے ہیں آپ کے دشنام ہنستے بولتے
آپ رسوا ہوں ہمارے سامنے ممکن نہیں
اپنے سر لے لیں گے ہر الزام ہنستے بولتے
دل لگی ہی دل لگی میں کام اپنا بن گیا
آ گیا پہلو میں وہ گلفام ہنستے بولتے
موسم گل میں ہمیں رکھنا تھا دل صیاد کا
ہو گئے ہم خود اسیر دام ہنستے بولتے
بد گماں تھے لاکھ تم ہم سے نصیب دشمناں
پھر بھی تم ہم سے برائے نام ہنستے بولتے
ہم نہ کہتے تھے نہ سنئے دل جلوں کی داستاں
ہو گئے کیوں لرزہ بر اندام ہنستے بولتے
بات تو کچھ بھی نہ تھی ہاں بات تو کچھ بھی نہ تھی
ہو گئے ہم مفت میں بد نام ہنستے بولتے
گردش ایام کا شکوہ تجھے زیبا نہیں
اور لے ہمت سے اے دل کام ہنستے بولتے
شادمانی مسکرائی خوش نصیبوں پر تو کیا
بات تو جب تھی غم و آلام ہنستے بولتے
ایک معبد میں مکیں ہیں ایک مدت سے مگر
کیوں نہیں اصنام سے اصنام ہنستے بولتے
بزم مے میں کیوں کسی کو جرأت انکار ہو
جب ملے ہاتھوں سے ان کے جام ہنستے بولتے
ان میں یہ تفریق کیوں ہے اے مرے پروردگار
کیوں نہیں آپس میں خاص و عام ہنستے بولتے
بولتے ہنستے گزاری ہم نے ساری زندگی
کیوں نہ پھر ہم نزع کے ہنگام ہنستے بولتے
تھا دم آخر تصور میں جمال دل نشیں
ہو گیا طالبؔ بخیر انجام ہنستے بولتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.