ہو رہی ہے اس تصور سے پریشانی مجھے
ہو رہی ہے اس تصور سے پریشانی مجھے
آئنہ ان کو اداسی دے گا حیرانی مجھے
خون رلواتی ہے ہم جنسوں کی نادانی مجھے
وہ خطا کرتے ہیں ہوتی ہے پشیمانی مجھے
ہو گیا ہے آج ہر انساں ضرورت کا غلام
اب کسی تلوار پر ملتا نہیں پانی مجھے
یہ ہوا عقل و جنوں کی جنگ کا رد عمل
حکمراں ملتی ہے ہر بستی پہ ویرانی مجھے
جب حقارت سے کسی کو دیکھتا ہے کوئی شخص
کیا کہوں ہوتی ہے جو تکلیف روحانی مجھے
جانتا ہوں ضد نہ کرنا پوچھنے کی دوستو
کس کے در پر خم ملی ہے کس کی پیشانی مجھے
سر جھکے تو بس نہ اٹھنے کی قسم کھا کر جھکے
مشورہ یہ دے رہی ہے میری پیشانی مجھے
آج کے زہرہ جمالوں کا تمدن دیکھ کر
سرنگوں ملتی ہے بوئے گل کی عریانی مجھے
امتحاں لیتی ہے قدرت حیثیت کو دیکھ کر
قہقہے ان کو ملے ہیں اشک افشانی مجھے
چاند تاروں کے جہاں میں گھر بنانے کے لئے
آج کل دنیا نظر آتی ہے دیوانی مجھے
اب کسی کشتی کو دریا میں کوئی خطرہ نہیں
خیمہ زن ملتی ہے ہر ساحل پہ طغیانی مجھے
میکدے کی بات ہی کیا پوچھتے ہو دوستو
محترم لوگوں کے ماتھے پر ملا پانی مجھے
عشق تو انسانیت کے امتحاں کا نام ہے
ہو نہالؔ اس امتحاں سے کیوں پریشانی مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.