ہوئی تذلیل ہنر با ہنروں کے ہوتے
ہوئی تذلیل ہنر با ہنروں کے ہوتے
نغمہ بے ربط ہوا نغمہ گروں کے ہوتے
کسی آسیب کا سایہ ہے یقیناً ورنہ
در بدر پھرتے نہ ہم اپنے گھروں کے ہوتے
یہ غنیمت ہے کہ کچھ اہل نظر باقی ہیں
ہم ہدف ورنہ یہاں کم نظروں کے ہوتے
عشق پر کیسا کڑا وقت پڑا ہے یارو
شہر ویران ہے آشفتہ سروں کے ہوتے
گرتے پڑتے سبھی منزل پہ پہنچ تو جاتے
کاش دھوکے میں نہ ہم راہبروں کے ہوتے
کوئی عیسیٰ نظر آ جائے تو اس سے پوچھوں
لوگ مر جاتے ہیں کیوں چارہ گروں کے ہوتے
ہم ہی سے ہو نہ سکی مدح سرائی ان کی
ورنہ منظور نظر تاجوروں کے ہوتے
جانے کس خوف سے سمٹے ہوئے بیٹھے ہیں طیور
اڑ نہیں پاتے نشیمن سے پروں کے ہوتے
ایک گردش ہی میں اب تک تو بکھر بھی جاتے
ہم اگر دست نگر کوزہ گروں کے ہوتے
سوچتا ہوں نہ ہو منزل کا طلسم نیرنگ
راہ کیوں ملتی نہیں راہبروں کے ہوتے
جانے کیا ہو گیا قسمت کو ہماری یا رب
کچھ نظر آتا نہیں دیدہ وروں کے ہوتے
ہم سے اوراق تواریخ یہ کرتے ہیں سوال
کیسے بے نام ہوئے نام وروں کے ہوتے
لطف تو جب تھا کہ روداد سفر میں واصلؔ
تذکرے تھوڑے بہت ہم سفروں کے ہوتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.