ہجوم عیش و-طرب میں بھی ہے بشر تنہا
ہجوم عیش و-طرب میں بھی ہے بشر تنہا
نفس نفس ہے مہاجر نظر نظر تنہا
یہ میرا عکس ہے آئینے میں کہ دشمن ہے
اداس تشنۂ ستم دیدہ بے خبر تنہا
یہ قتل گاہ بھی ہے بال پن کا آنگن بھی
بھٹک رہی ہے جہاں چشم معتبر تنہا
برا نہ مان مرے ہم سفر خدا کے لئے
چلوں گا میں بھی اسی راہ پر مگر تنہا
نہ جانے بھیگی ہیں پلکیں یہ کیوں دم رخصت
کہ گھر میں بھی تو رہا ہوں میں عمر بھر تنہا
نہ بزم خلوتیاں ہے نہ حشر گاہ عوام
اندھیری رات کروں کس طرح بسر تنہا
کسی غزل کا کوئی شعر گنگناتے چلیں
طویل راہیں وفا کی ہیں اور سفر تنہا
نثار کر دوں یہ پلکوں پہ کانپتی یادیں
ترا خیال جو آئے دم سحر تنہا
جدھر بھی جاؤ کوئی راہ روک لیتا ہے
وفا نے چھوڑی نہیں ایک بھی ڈگر تنہا
برت لو یارو برتنے کی چیز ہے یہ حیات
ہو لاکھ ترسی ہوئی تلخ مختصر تنہا
امید کتنی ہی مایوسیوں کی مشعل ہے
ہو رہ گزار میں جیسے کوئی شجر تنہا
جدھر سے گزرے تھے معصوم حسرتوں کے جلوس
سنا کہ آج ہے زیدیؔ وہی ڈگر تنہا
- کتاب : Nasiim-e-Dasht-e-Aarzoo (Pg. 27)
- Author : Ali Jawad Zaidi
- مطبع : Ali jawad Zaidi (1982)
- اشاعت : 1982
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.