ہجوم غم میں بہر حال مسکرانا ہے
ہجوم غم میں بہر حال مسکرانا ہے
ہوا کے رخ پہ چراغ یقیں جلانا ہے
ہے دل خراش بہت یاد میرے ماضی کی
اسے حریم غزل میں مجھے سجانا ہے
گنہ کے خوف سے انسان کانپ جاتا تھا
یہ واقعہ تو ہے لیکن بہت پرانا ہے
تمام شہر پہ حاکم کا جبر ہے غالب
یہ کیا کہ ناز بھی اس کا ہمیں اٹھانا ہے
جدید دور میں اصحاب کہف کے مانند
قدیم دور کا سکہ ہمیں چلانا ہے
جنہیں ہے زعم بہت اپنی بے گناہی پر
انہیں بھی چل کے ذرا آئینہ دکھانا ہے
چراغ عزم کا تم ساتھ لے چلو ساحلؔ
ہوا کے زور مسلسل کو آزمانا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.