حسین ہی تھا جو پیاسا اٹھا فرات سے وہ
حسین ہی تھا جو پیاسا اٹھا فرات سے وہ
لہولہان سمندر تھا اپنی ذات سے وہ
فصیل شب کی کمیں گاہیں اس پہ سب روشن
نہ جانے گزرے گا کب جائے واردات سے وہ
کیا نہ ترک مراسم پہ احتجاج اس نے
کہ جیسے گزرے کسی منزل نجات سے وہ
پرندے لوٹ رہے ہیں کھلے بسیروں میں
گیا ہے گھر سے بھی لڑ کر گزشتہ رات سے وہ
نہ جانے کیا ہیں یہ دیمک زدہ سی تحریریں
ڈرا ڈرا سا ہے بوسیدہ کاغذات سے وہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.