حسن شعار میں مجھے ڈھلنے نہیں دیا
حسن شعار میں مجھے ڈھلنے نہیں دیا
اس نے کسی بھی گام سنبھلنے نہیں دیا
حائل رہ حیات میں حساسیت رہی
اس دل نے دو قدم مجھے چلنے نہیں دیا
رکھا بصد خلوص رگ و پے میں مستقل
لمحہ کوئی بھی درد کا ٹلنے نہیں دیا
کچھ وہ بھی چاہتا تھا یہاں مستقل قیام
میں نے بھی اس کو دل سے نکلنے نہیں دیا
محفل کو جو دیا ترے انداز داد نے
ایسا مزہ تو میری غزل نے نہیں دیا
اک بار اعتراف محبت پہ عمر بھر
ہم نے اسے بیان بدلنے نہیں دیا
دریا ہزار دل میں بپھرتے رہے مگر
آنکھوں میں کوئی اشک مچلنے نہیں دیا
طاہر عدیمؔ اپنا دیا کیا جلائے گا
جس نے مرا چراغ بھی جلنے نہیں دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.