حسن کا طالب اگر ہے عشق کے آزار کھینچ
حسن کا طالب اگر ہے عشق کے آزار کھینچ
صدمۂ ہجر مسیحا اے دل بیمار کھینچ
جاں نثاروں پر نہ ظالم ہر گھڑی تلوار کھینچ
خون سے اپنے وفاداروں کے ہاتھ اے یار کھینچ
رخ پر آنچل کا نہ پردہ اے پری رخسار کھینچ
دیدۂ عشاق پر اے گل نہ یوں دیوار کھینچ
مرد میدان محبت ہے تو اے رستم نکل
کچھ سکت ہو تو کمان ابروئے خم دار کھینچ
عاشق روئے بتاں کو نگہت گل سے غرض
ہو سکے تو اے صبا عطر گل رخسار کھینچ
ہے جو ہر صورت میں منظور اس کا نظارہ تجھے
غافل آنکھوں سے تو اپنے پردۂ پندار کھینچ
حشر کو عرصہ ہے کیا اس وعدہ کو بھی دیکھ لیں
خیر تھوڑی اور ایذا اے دل بیمار کھینچ
دیر سے حاضر ہیں قاتل معرکہ میں کشتنی
پیش و پس کس بات کا ہے میان سے تلوار کھینچ
ساتھ غیروں کے نہ جا سیر چمن کو اے حسین
مجھ کو کانٹوں پر نہ تو اے غیرت گلزار کھینچ
ہو گیا کیا سایۂ بال ہما سایہ ترا
اس قدر دور آپ کو مجھ سے نہ اے دیوار کھینچ
سب پہ یکساں چشم رحمت تیری ساقی چاہئے
اس طرف بھی تو نگاہ ناز کی تلوار کھینچ
صورت تصویر حیراں ہو گیا ہے آپ وہ
کیا کہوں مانی سے میں تصویر روئے یار کھینچ
اے مری تقدیر اب لے چل مدینے کی طرف
جذبۂ دل جانب بطحا مجھے اک بار کھینچ
حوریں لے جائیں گی پیراہن بسانے کے لئے
عطر خاک پاک طیبہ کا تو اے عطار کھینچ
اے زلیخا ہے یہ آداب محبت سے بصد
شہر کنعان سے نہ یوسف کو سوئے بازار کھینچ
ہم سے دیوانوں کی ہے جاگیر میں طیبہ کا دشت
اے جنوں مجنوں ہی کو تو جانب کہسار کھینچ
ہے جوار حضرت محبوب حق اکبرؔ کی جا
جانب جنت نہ اے رضوان اسے زنہار کھینچ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.