حسن کیا جس کو کسی حسن سے خطرہ نہ ہوا
حسن کیا جس کو کسی حسن سے خطرہ نہ ہوا
کون یوسف ہدف کید زلیخا نہ ہوا
وہ پیمبر بھی نہیں ہوگا خدا شاید ہو
پاک دامن تو رہا شہر میں رسوا نہ ہوا
تھے نیا چاند تو تھیں ہم سے امیدیں کیا کیا
قوس کے قوس رہے دائرہ پورا نہ ہوا
لرزش لب کو زباں کوئی کمک دے نہ سکی
پوچھنے پر بھی تو اعلان تمنا نہ ہوا
ہم گریبان شب تار ٹٹولا ہی کیے
کاج تکموں سے سلے تھے سو اجالا نہ ہوا
کیا نہ چاہا کہ بنا لے مہ کنعاں کو غلام
ایک بڑھیا نے بھی افسوس کہ پیسہ نہ ہوا
نا شعوری میں عجب زعم تھا دانائی کا
جب ذرا عقل مجھے آئی تو دیوانہ ہوا
وارثوں کو نہ رہا یاد کہ ورثہ کیا تھا
اور کفن بھی شہدا کا ابھی میلا نہ ہوا
ہر تمنا نے نکلتے ہی دغا دی کیسی
کچھ وفادار وہ ارماں تھا جو پورا نہ ہوا
پیار بے قول و قسم دونوں طرف اب تک ہے
آ پڑی اس کو حیا ہم سے تقاضا نہ ہوا
زندہ گاڑے ہوئے بندوں کے یہ سنسان نگر
آج ہی کوئی زمانے کا مسیحا نہ ہوا
یہ بھی کہتا کہ خدا ہوں تو جبیں جھک جاتی
ویسا انسان کوئی اور تو پیدا نہ ہوا
کنج تک آ کے مجھے سنیے کہ بلبل کوئی
آ کے محفل میں کبھی زمزمہ پیرا نہ ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.