حسن والوں کی طبیعت سے حیا نکلی ہے
حسن والوں کی طبیعت سے حیا نکلی ہے
عشق کی خاک سے خوشبوئے وفا نکلی ہے
سانس نکلی ہے تو کم بخت قضا نکلی ہے
موت کی کوکھ سے جینے کی دوا نکلی ہے
چاہے آرام دے تکلیف دے اس کا بیٹا
ماں کے دل سے تو ہمیشہ ہی دعا نکلی ہے
چھوڑ کر اپنے ہر اک کام کو نکلے باہر
جب بھی مسجد سے موذن کی صدا نکلی ہے
خانقاہوں پہ برستی ہے کہ مے خانوں پر
بیٹھ کر دوش ہوا پر جو گھٹا نکلی ہے
جس کو سمجھا تھا مسیحا ترے بیماروں نے
اس کی جھولی سے ابھی نقلی دوا نکلی ہے
ایک دنیا ہوئی آخر کو منور قیصرؔ
کملی والے کے مدینے سے ضیا نکلی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.