ایمائے غزل کرتی ہیں موسم کی ادائیں
ایمائے غزل کرتی ہیں موسم کی ادائیں
اک موج ترنم کی ہوس میں ہیں فضائیں
نغموں کی زباں میں کوئی سمجھے تو بتائیں
کیا چیز ہے یہ طرز یہ طرحیں یہ ادائیں
روکے نہ گئے سینۂ خارا سے وہ طوفاں
ہیں جن کو کناروں میں لئے ننگ قبائیں
آئینے سے ہوتی ہیں صلاحیں کہ کسی کو
جب خوب مٹانا ہو تو کس طرح مٹائیں
ایسی ہی ترے شہر میں ہوتی ہے مروت
ایسی ہی مرے دیس میں ہوتی ہیں وفائیں
دیکھے کوئی افلاک کا یہ جوش تباہی
تنکے کو ڈرنا ہو تو طوفان اٹھائیں
ٹھہرا ہوں اسی بات پہ میں لائق تعزیر
جس بات پہ بخشی گئیں اوروں کی خطائیں
دیوانوں کو دنیا سے الجھنے کی کہاں تاب
فرصت ہو تو اک اور ہی دنیا نہ بنائیں
یہ کون سے زنداں کی گرائی گئی دیوار
یہ کون سی تعمیر کی اٹھتی ہیں بنائیں
اے مسکن خوبان زماں شہر عزیزاں
ہم بھی کبھی بکنے ترے بازار میں آئیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.