ایماں کے بھروسے پر دریا میں اتر جانا
ایماں کے بھروسے پر دریا میں اتر جانا
تو بحر حوادث سے یک لخت ابھر جانا
جس راہ پہ پھیلا ہو نفرت کا اندھیرا تم
الفت کی ضیا لے کر اس رہ سے گزر جانا
گھر میرے چلے آئے وہ خود ہی اچانک سے
کہتے ہیں اسی کو تو قسمت کا سنور جانا
شاعر میں نہیں لیکن صحبت کا اثر ہے یہ
جب شعر ہوا کوئی فیضان نظر جانا
میخانے سے پی کر بھی لوٹا ہے سلیقے سے
معلوم تھا اس کو اب جانا ہے تو گھر جانا
ہم سچ کو کہیں گے سچ فطرت یہ ہماری ہے
ظالم سے ہمیں ہرگز آتا نہیں ڈر جانا
ابا کی نصیحت پر کرتا ہوں عمل ہر دم
اس ایک عمل سے ہی سیکھا ہے نکھر جانا
مصروف اگر ہو تم بے کار نہیں میں بھی
اس غم سے تو بہتر ہے آوارہ ہی مر جانا
برسات کا خدشہ ہے بجلی نہ کہیں گر جائے
جاتے ہو کہاں احمدؔ کچھ دیر ٹھہر جانا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.