اک آخری امید ہوں اک راستا ہوں میں
اک آخری امید ہوں اک راستا ہوں میں
چل کر گرا ہوں اور سنبھل کر اٹھا ہوں میں
سنتی ہے اس طرح سے مری زندگی مجھے
ٹوٹے ہوئے غرور کی بکھری صدا ہوں میں
وابستہ اس قدر تھا میں آنگن کی دھوپ سے
دیوار جب اٹھائی گئی گر پڑا ہوں میں
کل رات اپنے خواب میں پیاسا ہی مر گیا
دریا تری تلاش میں جاں سے گیا ہوں میں
اک سلسلہ تھا پشت تھی خنجر تھا وار تھا
حیرت زدہ ہیں یار کہ اب تک کھڑا ہوں میں
مجھ کو نکالنی تھی کئی سورجوں کی راہ
دنیا سمجھ نہ پائی کہ کیونکر بجھا ہوں میں
ہیں بے اثر یہ خون کے دھبے یہ شور و غل
میں ہوں ضمیر قوم ابھی سو رہا ہوں میں
دیکھا ہے میں نے خاک بھی صحرا بھی دشت بھی
وحشت ترے حدود سے آگے گیا ہوں میں
وہم و گمان والو مرے پاس آؤ تو
مجھ سے نظر ملاؤ کہ اک آئنہ ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.