اک ادھوری سی کہانی میں سناتا کیسے
اک ادھوری سی کہانی میں سناتا کیسے
یاد آتا بھی نہیں خواب وہ بکھرا کیسے
کتنے سایوں سے بھری ہے یہ حویلی دل کی
ایسی بھگدڑ میں کوئی شخص ٹھہرتا کیسے
پھول زخموں کے یہاں اور بھی چن لوں لیکن
اپنا دامن میں کروں اور کشادہ کیسے
دکھ کے سیلاب میں ڈوبا تھا وہ خود ہی اتنا
میری آنکھو تمہیں دیتا وہ دلاسہ کیسے
کانچ کے زار سے بس دیکھتا رہتا تھا تمہیں
بند شیشوں سے میں آواز لگاتا کیسے
اس کا پھن میں نے بہت دیر تلک کچلا تھا
رہ گیا سانپ ترے درد کا زندہ کیسے
اب تو آنکھوں میں سیاہی سی بھری رہتی ہے
ایسے عالم میں کوئی خواب ہو اجلا کیسے
داغ ہی داغ ابھر آئے مرے چہرہ پر
رنگ میرا اے مصور ہوا بھدا کیسے
خشک مٹی میں پڑا تھا مرے دل کا پودھا
اس کی شاخوں پہ کوئی پھول بھی آتا کیسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.