اک بار جو ملا تھا تو کھویا نہیں گیا
اک بار جو ملا تھا تو کھویا نہیں گیا
اس طرح وہ گیا ہے کہ گویا نہیں گیا
کل رات تیری یاد تھی کمرے میں یا کہ تو
اس درجہ روشنی تھی کہ سویا نہیں گیا
مجھ کو یہ اعتراف ہے کہ ناتواں ہوں میں
مجھ سے مرا وجود بھی ڈھویا نہیں گیا
آنسو ٹھہر گئے ہیں مرے اس کے گال پر
شبنم سے اس گلاب کو دھویا نہیں گیا
پھر میں نے قہقہے کا سہارا لیا ہے آج
دکھ اس قدر زیادہ تھا رویا نہیں گیا
وہ لطف عشق ہو کہ ستم ہائے روزگار
مجھ کو کسی لڑی میں پرویا نہیں گیا
پھر کس ثمر کی تم ہو تمنا لیے ہوئے
گر خود کو بھی زمین میں بویا نہیں گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.