اک دو قدم ہی ساتھ چلے بھی تو کیا چلے
اک دو قدم ہی ساتھ چلے بھی تو کیا چلے
تا عمر ساتھ دو تو وفا کا پتہ چلے
وقت سحر نظر جو پڑی سوئے رزم گاہ
دعویٰ وفا کا تھا جنہیں خیمے اٹھا چلے
ایسا چراغ جس پہ خدا مہربان ہو
کیا بجھ سکے گا لاکھ مخالف ہوا چلے
تھی اک متاع زیست مگر ان کی بزم میں
کیا خوب آئے دیکھیے وہ بھی لٹا چلے
مقتل کی آبرو تھے وہی لوگ شادباش
تیغ رضائے یار سے جو سر کٹا چلے
ظلمت کدوں میں دہر کے جب تھی نہ کوئی آس
تب ساتھ ساتھ میرے ترے نقش پا چلے
تیرے خیال سے ہے منور سیاہ شب
ورنہ تو روشنی کا کسے کیا پتہ چلے
بےچینؔ میں ہوں راہ فنا کا وہ راہرو
تائید جس کے قدموں کی کرتی بقا چلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.