اک فاختہ یہ پوچھ رہی ہے ہواؤں سے
اک فاختہ یہ پوچھ رہی ہے ہواؤں سے
کب تک چلے گا کام تمہاری دعاؤں سے
موتی لٹا رہے ہیں ستارے اداؤں سے
خیرات ضو کی لائے ہیں سورج کے گاؤں سے
اے انتہائے شوق ذرا صبر کر ابھی
الجھا ہوا ہے ذہن ابھی ابتداؤں سے
اے تیرگی کے سانپ مرے دل پہ لوٹ جا
تیرا ہی ذکر خیر تھا دھندلی فضاؤں سے
دی ہیں جو آہ نیم شبی نے بصیرتیں
کافور ہو نہ جائیں سحر کی دعاؤں سے
ننھا سا اک فرشتہ کھڑا دیکھتا رہا
کچھ کہہ رہا تھا آدمی برگد کی چھاؤں سے
شب بھر بھنبھوڑتا رہا کتا قیاس کا
ایسی بھی دل لگی نہ کیا کر گداؤں سے
حیرتؔ یہ اعتقاد کا اندھا کنواں نہیں
بچ کر نکل شعور کی جلتی چتاؤں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.