اک غلط کردار کی پہچان میں مارا گیا
اک غلط کردار کی پہچان میں مارا گیا
میں کہانی میں نہیں عنوان میں مارا گیا
پر خزاں موسم میں بھی شاداب تھی رنگت مری
میں وہ گل ہوں جو ترے گلدان میں مارا گیا
گھر کے بٹوارے میں بے شک سب کو دولت مل گئی
خون کا رشتہ مگر دالان میں مارا گیا
لوگ جینا چاہتے تھے یہ حقیقت ہے مگر
زندگی کو موت کے امکان میں مارا گیا
سب سے پہلے سوچ پھر انسانیت ماری گئی
پھر بہت کچھ تھا جو اک انسان میں مارا گیا
چند غزلیں کم نگاہی کے ستم سہتی رہیں
اور کچھ کو دفن کر دیوان میں مارا گیا
پھر ہر اک سائے نے روپوشی کی چادر اوڑھ لی
شام کا سورج بھی جب میدان میں مارا گیا
ماجرا کیا تھا نفسؔ کس کی تھی وہ آہ و فغاں
کون تھا کل رات جو زندان میں مارا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.