اک غزل تو مرے ہاتھوں سے مثالی ہو جائے
اک غزل تو مرے ہاتھوں سے مثالی ہو جائے
کاش کے تو مرا محبوب خیالی ہو جائے
دیکھ لے تو مری جانب جو اٹھا کر نظریں
چشم پر نم جو تری ہے وہ غزالی ہو جائے
چاند سے رخ پہ جو پھرتے ہو لگا کر گاگل
عید کر لے نہ کوئی کچھ کی دیوالی ہو جائے
سامنے اس کو میں رکھتا ہوں غزل کہتا ہوں جب
اس غزل گوئی کی نقالی پہ تالی ہو جائے
دل میں تو ہے مرے آیت کی سی پاکیزہ پر
یہ دعا کر مری نیت نہ جمالی ہو جائے
خیر سے اپنا یہ نیتا بھی ہے بے حس ورنہ
شکل جو اس کی ہے چمکیلی وہ کالی ہو جائے
اب بھی ہو سکتی ہے ایمان کی رونق اظہرؔ
اک اذاں پھر جو اندھیروں میں بلالی ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.