اک حرف آرزو پہ خطا کار ہم ہوئے
اتنی سی بات تھی کہ گنہ گار ہم ہوئے
اک دن کسی کے خواب میں سوئے تمام رات
اک دن کسی کی آنکھ سے بیدار ہم ہوئے
پہلے تو نا سمجھ تھے زمانے کی آنکھ میں
پھر ہوتے ہوتے کتنے سمجھ دار ہم ہوئے
اس دور بے ہنر میں ہمیں کون پوچھتا
وہ تو کہو کہ اپنے خریدار ہم ہوئے
پہلے پہل تو عقل سے اکتائے کچھ بہت
پھر یوں ہوا کہ دل سے بھی بیزار ہم ہوئے
مدت کے بعد خود سے محبت ہوئی ہمیں
مدت کے بعد اپنے طلب گار ہم ہوئے
تیرے لئے کسی کے مخالف رہے تھے ہم
تیرے لئے کسی کے طرف دار ہم ہوئے
چاہت کی داستاں بھی رہی ہم سے منسلک
دل کی کہانیوں کے بھی کردار ہم ہوئے
ہونا تو چاہتے تھے بہر طور آپ سا
آپ ایسے بد لحاظ کہاں یار ہم ہوئے
پل پل بدلتے ٹھور ٹھکانوں کے شوق میں
اس پار ہم ہوئے کبھی اس پار ہم ہوئے
بدلے ہیں موسموں کی طرح ہم بھی اے رفیعؔ
اقرار ہم ہوئے کبھی انکار ہم ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.