اک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے اور اشک فشانی ہوتی ہے
اک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے اور اشک فشانی ہوتی ہے
یاد ان کی ستانے آتی ہے جب رات سہانی ہوتی ہے
یہ سوزش غم یہ درد و الم انعام محبت کیا کہئے
اک داغ ہی پر موقوف ہے کیا ہر چیز نشانی ہوتی ہے
لہراتا رہے گر شعلۂ غم تو حسن کا دامن بچ نہ سکے
آداب محبت کی خاطر یہ آگ بھی پانی ہوتی ہے
تھی سامنے ہی کی بات مگر یہ بھید ابھی تک کھل نہ سکا
کیوں روگ لگا کر الفت کا مغموم جوانی ہوتی ہے
اس راہ میں یہ ارباب ہوس ساتھ اہل وفا کا کیا دیتے
جس راہ میں صرف ارمان نہیں ہستی بھی مٹانی ہوتی ہے
مے خانۂ الفت کی باتیں نا اہل محبت کیا جانیں
متوالی نظر کی گردش بھی دلچسپ کہانی ہوتی ہے
نوابؔ وہ چاہے حسن کی ہو دولت ہے بہر صورت دولت
دولت کو جہاں میں قیام کہاں یہ آنی جانی ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.