اک عشق کرو زخم جگر آتے ہیں کتنے
اک عشق کرو زخم جگر آتے ہیں کتنے
اک پیڑ لگاؤ تو ثمر آتے ہیں کتنے
دل جیت ہی لے گا وہ مری کچھ نہ چلے گی
شاطر ہے بلا کا اسے گھر آتے ہیں کتنے
کیا حال ہے اب درد جدائی کا بتاؤ
اک اک کے اکیلے میں نظر آتے ہیں کتنے
کہنا تمہیں آتے ہیں فسانے بھی غزل بھی
دنیا میں پنپنے کے ہنر آتے ہیں کتنے
منہ سے وہ کسی بات کی دعوت نہیں دیتا
پیغام بہ انداز دگر آتے ہیں کتنے
لاکھوں ہیں شجر یوں تو مگر دیکھنا ہوگا
درپیش سفر ہو تو شجر آتے ہیں کتنے
اشعار غزل میرؔ کے لہجے میں نہ لکھو
سننے کو تمہیں خستہ جگر آتے ہیں کتنے
ہر شخص کی قسمت میں تو منزل نہیں ہوتی
ہم راہ لیے زاد سفر آتے ہیں کتنے
رہزن سفر عمر میں اک آتا ہے لیکن
اس چھوٹی سی فرصت میں خضر آتے ہیں کتنے
ہر بار شہابؔ ان سے ملاقات سے پہلے
اسباب بچھڑنے کے نظر آتے ہیں کتنے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.