اک جنگ کے انداز میں گفتار کھڑی تھی
اک جنگ کے انداز میں گفتار کھڑی تھی
بد رنگ انا مٹنے کو تیار کھڑی تھی
کیوں عشق کے ہی شہر پہ ٹوٹا تھا فقط قہر
جب حسن کی بستی بھی گنہ گار کھڑی تھی
اک خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں تھا
اک نیند شبستان میں بیدار کھڑی تھی
آہٹ ہوئی گونگی یا سماعت ہوئی بہری
دروازے پہ یا پھر کوئی دیوار کھڑی تھی
قدموں کی جسارت رہی منزل کی طرفدار
پر راہوں سے لپٹی ہوئی رفتار کھڑی تھی
احساس کے پر کاٹ کے دل کر کے شکستہ
ہونٹوں سے لگی طنز کی تلوار کھڑی تھی
کیوں حسن کے بازار میں چلتا مرا سکہ
جب چشم عدو دل کی خریدار کھڑی تھی
اک آنچ تھی ہر نقش رخ یار میں پنہاں
وہ حسن تھا یا آتشی یلغار کھڑی تھی
روتا رہا اخترؔ میں گناہوں سے لپٹ کر
اور میری خرد اک طرف بیمار کھڑی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.