اک مہرباں کا سب سے بڑا ڈر بھی میں ہی تھا
اک مہرباں کا سب سے بڑا ڈر بھی میں ہی تھا
اور اپنی آستین کے اندر بھی میں ہی تھا
وہ میں تھا جو بتوں کا مخالف بنا رہا
جس نے انہیں تراشا وہ آذر بھی میں ہی تھا
یہ ٹھیک ہے کہ مجھ پہ قیامت اٹھائی گئی
لیکن جناب حاصل محشر بھی میں ہی تھا
مہتاب کی جبین پہ بوسے بھی میرے تھے
مٹی کا ڈھیر بن کے زمیں پر بھی میں ہی تھا
اک سوکھتی ندی کی دہائی تھی میری آنکھ
اس آنکھ میں بپھرتا سمندر بھی میں ہی تھا
میں اپنے پانیوں پہ کوئی بلبلہ صفت
لوح جہاں پہ حرف مکرر بھی میں ہی تھا
مجھ پہ ہی بادہ مستی کی تہمت لگی تھی اور
خم خانۂ الست کا ساگر بھی میں ہی تھا
سب رنگئ نشاط کا عالم میرا وجود
یک رنگیٔ حیات کا محور بھی میں ہی تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.