اک نئے عزم سے یاران سبک گام چلے
اک نئے عزم سے یاران سبک گام چلے
غم کے سائے میں بھی پاتے ہوئے آرام چلے
یہ تماشا ہو کسی دن تو بڑا کام چلے
وہ ادھر نکلیں ادھر گردش ایام چلے
ساقیا کس لئے محروم مے آشام چلے
مے تازہ نہ سہی درد تہ جام چلے
شہر میں آج نہیں ہے مرے قاتل کا جواب
ظلم کی عمر بڑھے جور کا ہنگام چلے
دوستو کچھ تو ازالہ ہو پریشانی کا
آج پھر تذکرۂ زلف سیہ فام چلے
ہم بھی سمجھے ہوئے بیٹھے ہیں ہوا کے رخ کو
زور کب تک ترا اے گردش ایام چلے
کامیابی رہ مقصود میں ہے عزم کی بات
کام کا حوصلہ کچھ ہو تو بڑا کام چلے
نہ صلہ مہر و وفا کا نہ محبت کا جواب
ہائے وہ شہر نگاراں سے جو ناکام چلے
آہ صیاد نے کیا خوب ہوا باندھی ہے
خود ہی مرغان چمن کھنچ کے تہ دام چلے
ہار کر راہ میں کیوں بیٹھ رہے ہو یارو
جس کو چلنا ہر مرے ساتھ وہ دو گام چلے
ہے یہ خاصان محبت کا ہمیشہ سے شعار
جب چلے چھوڑ کے وہ شاہرہ عام چلے
زندگی کے لئے کیا کیا ہے مصیبت درپیش
زندگی خود ہی مصیبت ہو تو کیا کام چلے
کیا اب اکتا گیا جی عشق بتاں سے مسلمؔ
آج حضرت یہ کدھر باندھ کے احرام چلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.