اک نشتر نگاہ ہے اس سے زیادہ کیا
دم بھر کی آہ آہ ہے اس سے زیادہ کیا
گردن سے طوق خوف و طلب کو نکال دیکھ
پھر کوئی بادشاہ ہے اس سے زیادہ کیا
طاقت اگر ہے پاؤں میں صحرا کا خوف کیوں
بس اک کشادہ راہ ہے اس سے زیادہ کیا
وہ تو ہوا تھی بند نہ مٹھی میں ہو سکی
اب رنج خواہ مخواہ ہے اس سے زیادہ کیا
بالوں کو اپنے چھوڑ مری شام غم کو دیکھ
پھر دیکھ کچھ سیاہ ہے اس سے زیادہ کیا
ہر چند آج بھی ہے وہی کثرت امید
ہاری ہوئی سپاہ ہے اس سے زیادہ کیا
اک کنکری اچھال کے توڑو طلسم تاب
پانی میں عکس ماہ ہے اس سے زیادہ کیا
ہیں کامیاب جن کا یہاں جی نہیں لگا
دنیا کی درس گاہ ہے اس سے زیادہ کیا
گھٹتا ہی جائے گا یہ لطافت کے ساتھ ساتھ
یہ جسم زاد راہ ہے اس سے زیادہ کیا
خون جگر سے شعر لکھو اور ماحصل
دم بھر کی واہ واہ ہے اس سے زیادہ کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.