اک سادگی نبھائی ہے طرز سخن کے ساتھ
اک سادگی نبھائی ہے طرز سخن کے ساتھ
سودا نہیں کیا ہے کبھی فکر و فن کے ساتھ
یہ کیا کہ بات بات پہ بس دل لگی کی بات
تم بھی تو پیش آؤ کبھی اپنے پن کے ساتھ
دل میں ترے خیال سے یوں روشنی ہوئی
جیسے کہ صبح آئی ہو پہلی کرن کے ساتھ
زخموں کا چاند دل کی تپش اور حیا کے رنگ
اب سب چلے گئے ہیں تری انجمن کے ساتھ
مٹی کا قرض ہم نے کچھ ایسے ادا کیا
دستار بھی اتار دیا پیرہن کے ساتھ
اب کے ہوائیں کون سی رت لے کے آئی ہیں
صحرا بھی پر بہار ہے اب کے چمن کے ساتھ
اب کے گرانی ساری حدیں پار کر گئی
سودے میں اب ضمیر بھی ہے جان و تن کے ساتھ
کیسے زمانے تیری خدائی قبول ہو
رشتے مرے بحال ہیں دار و رسن کے ساتھ
آپس میں الجھے رہتے ہیں کیوں ذہن اور ضمیر
سمجھوتہ دونوں کر ہی چکے جب کہ من کے ساتھ
شاید کوئی حسین سا منظر ابھر کے آئے
گردش میں اب کے ابر ہے نیلے گگن کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.