اک تماشا دیکھتا ہوں رسم الفت کے خلاف
اک تماشا دیکھتا ہوں رسم الفت کے خلاف
آنکھ ہے دل کی مخالف دل نصیحت کے خلاف
سہ رہی ہیں ظلم آنکھیں نظم قدرت کے خلاف
بت کدے پر جھک رہا ہے دل مشیت کے خلاف
لاکھ سر پٹکا کرے دل ضعف حجت کے خلاف
چل نہیں سکتی کوئی تدبیر قسمت کے خلاف
ناتواں سی یہ صدا آتی ہے اب بھی نجد میں
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب دل تھا محبت کے خلاف
مرحبا وہ بے نیازی مدعیٔ ہوش کی
جو غنی کر دے توکل بن کے دولت کے خلاف
آئنہ یہ کہہ کے آخر توڑ ڈالا شوخ نے
شرک کی صورت نظر آئی ہے وحدت کے خلاف
آخری منزل پہ دم لے کر جو دیکھا تو کھلا
راہ دنیا میں نہیں کوئی حقیقت کے خلاف
ایک وعدے پر ہی کیا موقوف ہے جان جہاں
تم ہمیشہ بات کرتے ہو طبیعت کے خلاف
اب مجھے اپنے مقدر پر حقیقی ناز ہے
سامنے ہونے کو ہیں آخر وہ عادت کے خلاف
چھپ گئے ہیں اس لیے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
فیصلہ محفوظ ہے گویا شہادت کے خلاف
دیکھتا گر شادؔ اور آباد ہر مغموم کو
کیوں زباں کھلتی بشر کی دست رحمت کے خلاف
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.