اک تو ہی مجھے دل میں سمونے کے لیے تھا
اک تو ہی مجھے دل میں سمونے کے لیے تھا
یہ شہر تو سارا مجھے کھونے کے لیے تھا
دریا چلا آیا تھا مری راہ میں چل کر
کشتی کا سفر مجھ کو ڈبونے کے لیے تھا
افسوس وہی قحط کا لقمہ بنا آخر
وہ بیج کہ جو خاک میں بونے کے لیے تھا
تحفے میں دیا ہم کو ترے شہر وفا نے
وہ داغ ندامت کہ جو دھونے کے لیے تھا
خوابوں کے تسلسل میں ہی الجھی رہیں آنکھیں
اک پل نہ ملا ایسا جو سونے کے لیے تھا
اک عمر تراشا کیا جو اپنے ہی بت کو
وہ اپنے ہی گھر کے کسی کونے کے لیے تھا
کچھ مجھ کو رلانے کی تمنا بھی تھی اس کی
کچھ وقت مرے پاس بھی رونے کے لیے تھا
آرام طلب لوگ تھے شہزادؔ سو ہم سے
وہ بھی نہ ہوا کام جو ہونے کے لیے تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.