اکلوتی جاگیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
اکلوتی جاگیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
ہم تیری تصویر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
بیٹھے بیٹھے آزادی کے خواب سجاتے رہتے ہیں پھر
پیروں کی زنجیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
کاغذ پر پیچیدہ مصرعوں کی بھر مار لگا دیتے ہیں
پھر دیوان میر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
اپنے تیر کمان کے چھن جانے کا گریہ کرنے والے
اوروں کی شمشیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
دور جدید ہے سارے رانجھے اپنے اپنے موبائل پر
اپنی اپنی ہیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
دن بھر سڑکوں پر انجیریں بیچنے والے بھوکے بچے
رات گئے انجیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
غالبؔ کی غزلیں پڑھتے ہیں ذوقؔ سے شکوہ کرتے ہیں
سوداؔ اور دبیرؔ کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
چھوٹی چھوٹی باتوں پر یوں خون خرابہ ہو جاتا ہے
ہم احرامؔ ضمیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.